زندگی مجبور ہے معزور ہے لاچار ہے
ہم کو أڑنے کے لیۓ بس حوصلہ درکار ہے
آج شاٸد گھر کے آنگن میں مرے أترا ہے چاند
آج رخشندہ مرےگھر کی ہر اک دیوار ہے
ہم کہاں تھے اور کہاں سے ہم کہاں تک آگٸے
اب تو کہیٸے کیا ارادہ آپ کا سرکار ہے
آپ نے غربت کدے میں آکے بخشی آبرو
دل ہمارا دیکھ کر ہی آپ کو سرشار ہے
حُسن کا جن کے ہوا چرچا بظاہر کو بہ کو
کس رسالے میں میں چھپی ہے وہ خبر درکار ہے
آج جس پرچے نے چھاپا آپ کی تصویر کو
آج سارے شیر کے ہاتھوں میں وہ اخبار ہے
پھر نہ جانے رہماٸےقوم ہیں کیونکر خموش
سرفروشی کے لیٸے ہر شخص ہی تیار
سامنے آنکھوں کے ہے نیّر صراط ِ مستقیم
دور ہے منزل نہ کوٸی راستہ دشوار ہے
نیر صدیقی