غزل
زندگی میں نے ہزاروں خواہشوں میں بانٹ دی
جیسے اک تصویر ٹوٹے آئنوں میں بانٹ دی
رنج و غم خوف و اذیت رتجگے محرومیاں
دل کی بستی اب ہزاروں بستیوں میں بانٹ دی
مفلسی میں اور کیا دیتے بھلا احباب کو
درد کی دولت بچی تھی دوستوں میں بانٹ دی
اب طلوع ہو یا نہ ہو صبح کرم کیا فائدہ
میں نے شام بے بسی تاریکیوں میں بانٹ دی
جب ملا اذن رہائی زندگی کی قید سے
آخری سانسوں کی دولت حسرتوں میں بانٹ دی
میرے ہمسائے نے جو کتے کو پھینکی تھی نصیرؔ
میں نے وہ روٹی اٹھا کر بچیوں میں بانٹ دی
نصیر بلوچ