غزل
زندگی کا ہاتھ بھی اک دن جھٹک جائیں گے ہم
کیا خبر کس وقت پنکھے سے لٹک جائیں گے ہم
ہم خزاں رت کی شبِ فرقت کے مارے لوگ ہیں
مسکراتے پھول ہیں لیکن چٹک جائیں گے ہم
باتوں باتوں میں چلے گا ذکر تیرا دفعتاً
اور تیرے نام پر یک دم اٹک جائیں گے ہم
بھاگ نکلیں گے کسی دن رفتگاں کے جال سے
دھول کی صورت اداسی کو جھٹک جائیں گے ہم
جنگ کے حالات سے نکلے تو لمبی سیر کو
پہلے دہلی، پھر بنارس ،پھر اٹک جائیں گے ہم
کرن منتہیٰ