زندگی کا یہی فسانہ ہے
جو بھی آیا ہے اس کو جانا ہے
کس لئے موت سے ڈریں آخر
موت کو ایک دن تو آنا ہے
جسم اور روح کا تعلق تو
شاخِ نازک پہ آشیانہ ہے
خاک سے خاک تک پہنچنے کا
زندگی تو بس اک بہانہ ہے
کوئی رشتہ بھی پائیدار نہیں
سب کو آخر بچھڑ ہی جانا ہے
گو کہ فانی ہے یہ جہاں لیکن
دل بضد ہے کہ دل لگانا ہے
ہم سے ذیادہ قریب ہے رب کے
جس کو کہتے ہیں سب دوانہ ہے
خواہشِ نفس ہو اگر صیاد
اس سے بہتر تو قید خانہ ہے
بات کچھ خاص ہے صباؔ تجھ میں
تیرا انداز عارفانہ ہے
صبا عالم شاہ