زندگی کو سبق سکھا دوں گا
زندہ رہ کر اسے دکھا دوں گا
وہ مری چشم تر کو ترستے گا
ضبط کا سلسلہ بڑھا دوں گا
زیب دیتا ہے آسماں کو غرور
خاک زادہ؛ میں اس کو کیا دوں گا
بے اجازت جو خواب آئے تو
نیند سے خود کو میں جگا دوں گا
اپنی یادیں تو سونپ دوں گا اسے
اس کی یادیں اسے تھما دوں گا
جب بھی تیرہ شبی ستائے گی
ایک تصویر میں جلا دوں گا
بات تازہ رہے مری انصر
اس قدر بات کو ہوا دوں گا
انصر رشید انصر