Zindagi ki Kitab kia Kahyee
غزل
زندگی کی کتاب کیا کہیے
ہر سبق لاجواب کیا کہیے
زندگی سوگوار پردے میں
موت ہے بے نقاب کیا کہیے
بن محبت کے زندگی یاروں
جیسے سوکھا گلاب کیا کہیے
کھیل ہے بھوک پیاس کا سارا
ناچتی ہے رکاب کیا کہیے
لوگ چاہت میں مال و دولت کی
بھول بیٹھے ثواب کیا کہیے
آزماتا رہا خدا ہم کو
ہر قدم پر جناب کیا کہیے
شازیہ ظلم کرنے والوں کا
ہو گا اک دن حساب کیا کہیے
شازیہ طارق
Shazia Tariq