loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 18:36

زہر اگلتے رہتے ہیں وہ کانوں میں

زہر اگلتے رہتے ہیں وہ کانوں میں
لوگ گھرے رہتے ہیں جو نادانوں میں

اُیک گلی میں اندھی بتی جلتی تھی
ہم بھی شامل تھے اُس کے پروانوں میں

بھائی بہن سب گرمی کی دوپہری میں
رسہ کودا کرتے تھے دالانوں میں

گھر پچھواڑے بھی باغیچہ ہوتا تھا
گانے ہم گاتے تھے اونچی تانوں میں

اک دوجے کے پیچھے بھاگا کرتے تھے
لڑکے بالے کھیتوں میں کھلیانوں میں

بستہ رکھتے گھر اسکول سے آتے ہی
دوڑ لگاتے خوب کھلے میدانوں میں

پیچ پڑا کرتا تھا روز کبڈی کا
زورا زوری ہوتی شیر جوانوں میں

دھوم بڑی ہوتی تھی میلوں ٹھیلوں کی
جوڑ برابر لگتے تھے بلوانوں میں

بوڑھے بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے
اپنے اپنے خوابوں کے ایوانوں میں

ایک انوکھی لذت شامل ہوتی تھی
اماں کے ہاتھوں کے پکے کھانوں میں

ہر موسم پھولوں کا موسم ہوتا تھا
تتلی رس بھرجاتی تھی گلدانوں میں

بور آتے ہی باغ میں جھولے پڑتے تھے
ڈورے ڈالے جاتے تھے ارمانوں میں

گاؤں کی بیٹی کی شادی ہوتی تھی
گاؤں امڈ آتا تھا سارا گانوں میں

بیگانوں میں اپنا پن بھی ہوتا تھا
اپنا جان کے رہتے تھے بیگانوں میں

جس دن پکّی فصل اتاری جاتی تھی
گھر گھر حصہ لگتا تھا پکوانوں میں

تہواروں میں بچے شوق سے کھاتے تھے
چونا کتھا کم ہوتا تھا پانوں میں

سونا چاندی پاس کسی کے ہوتا تھا
پھر بھی کب رکھتے تھے وہ تہ خانوں میں

سب دروازے کھول کے سویا کرتے تھے
ایک سپاہی ہوتا تھا بس تھانوں میں

شہر کی رونق چھوڑ کے کچھ مہمان کبھی
جانے کیوں آتے تھے اِن ویرانوں میں

جادو ٹونا کرنے والے گندے لوگ
راکھ کریدا کرتے تھے شمشانوں میں

اک دن ایسا بھی آتا تھا جس دن سب
پھول چڑھانے جاتے قبرستانوں میں

فرزانوں کے ساتھ بھی چل کر دیکھ لیا
رہ کر دیکھو کچھ دن ہم دیوانوں میں

آج بھی خسروؔ آئینے کو حیرت ہے
عکس اُسی کا ہے دل کے سب خانوں میں

(فیروز ناطق خسروؔ)

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم