زیست رعنائیوں سے بھر دی ہے
راہ کیوں پھر یہ پرخطر دی ہے
شکر تیرا ادا میں کرتی ہوں
مجھ کو نعمت تمام تر دی ہے
درد سے بھر دیا ہے اس دل کو
کس لیے آہ بےاثر دی ہے
میں نہیں ہوں نہیں ہوں ماہرِ فن
تونے دنیا ہی بےہنر دی ہے
فیصلے اپنے لے نہیں پاتی
پھر طبیعت ہی کیوں نڈر دی ہے
یہ سحر ہے طلسم ہے یا نشہ
بےخودی کیسی جادوگر دی ہے
دیکھ ابلاغ کی ترقی کو
ایک جملے میں سب خبر دی ہے
میرے اپنے رہیں سلامت سب
یہ دعا میں نے عمر بھر دی ہے
میں کیا اندھی ہوں گونگی بہری ہوں
مجھ کو رب نے زباں نظر دی ہے
دل کے رشتے بھی جم گئے اب تو
روحِ انسانیت پہ سردی ہے
کیوں ہے شہناز گم اندھیروں میں
کس نے تاریک یہ ڈگر دی ہے
شہناز رحمت