سارے وعدے وہی گھڑے ہوئے ہیں
جن کو سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں
بزم سے اس لیئے چلے آئے
ایک سے ایک واں پڑے ہوئے ہیں
ہم کو مجنوں بنا کے چھوڑیں گے
وہ اِسی بات پر اڑے ہوئے ہیں
ہم نے ہمت مگر نہیں ہاری
امتحاں زیست میں کڑے ہوئے ہیں
چارسو مشکلات ہیں کتنی
اور ہم درمیاں کھڑے ہوئے ہیں
سر پہ دستارِ ذمہ داری ہے
ریگِ طوفان میں گڑے ہوئے ہیں
خواب مت چھینیے کسی کے ضیاء
ان میں دُرِ یقیں جَڑے ہوئے ہیں
ضیاء زیدی