سارے گلے رکھے ہیں اس نے کتاب کر کے۔
۔اب کیا سخن لکھیں ہم اس کو جواب کر کے۔
۔۔ہم پر ہی قرض اس کی دلداریاں نہیں ہیں۔
۔بیٹھے ہیں فرقتوں کا ہم بھی حساب کر کے۔
۔۔وہ جا چکا ہے پھر بھی خوشبو سی ہر طرف ہے
۔گزرا ہے وصل موسم دل کو گلاب کر کے۔
۔۔یہ کیا کہ تم بھلادو ہم کو نہ کچھ سمجھ کر۔
۔ہم تم کو پوچھتے ہیں عالی جناب کر کے۔
۔۔اک درد۔لا دوا کو پہلو میں سینت رکھا۔
۔اک شکل کو رکھا ہے آنکھوں میں خواب کر کے۔
۔۔تم فرد۔زندگی میں قائل حساب کے ہو۔
۔چاھا تھا ہم نے رکھنا چاہت نصاب کر کے۔
۔۔اب بھی ہے وقت سن لو پھر ڈھونڈتے پھرو گے۔
۔اک شاعرہ یہاں تھی وہ جو حجاب کر کے۔۔
حجاب عباسی