سامنے لاؤ اس فسادی کو
جس نے لُوٹا ہے دل کی وادی کو
اک فلک زاد نے مُحبت میں
توڑ ڈالا زمین زادی کو۔
کون کہتا ہے بوجھ ہیں بوڑھے
میں سنبھالوں گی دادا ، دادی کو
جس میں گھر بیچنا پڑے بابا
میں نہ مانوں گی ایسی شادی کو
بادشاہا ترے مشیروں نے
نوچ ڈالا ہے شاہ زادی کو
جب چھلک جائیں جام آنکھوں کے
کون روکے نشے کے عادی کو
زریں مُنور