غزل
سانحہ آج کا یہ کیا کم ہے
آدمی آدمی سے برہم ہے
تیرگی بھی ہنسی اڑاتی ہے
لو چراغوں کی کتنی مدھم ہے
راہ ہستی کہیں نہ جھلسا دے
دھوپ زائد ہے چاندنی کم ہے
رکھئے لہجے میں پیار کی شبنم
زخم دل کا یہی تو مرہم ہے
آدمی پھر بھی تھک ہی جاتا ہے
راستہ گرچہ زیست کا کم ہے
تلخ کیوں بن گئی زباں تیری
دل دکھانے کو آئنہ کم ہے
چھوڑ کر تو ابھی گیا بھی نہیں
شہر دل میں ابھی سے ماتم ہے
ہاتف عارفی فتح پوری