سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے
حبس جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے
۔
اب تو میرا دشمن بھی میری طرح روتا ہے
کچھ گلے تو کم ہوں گے ساتھ ساتھ رونے سے
۔
متن زیست تو سارا بے نمود لگتا ہے
درد بے نہایت کا حاشیہ نہ ہونے سے
۔
سچے شعر کا کھلیان اور بھرتا جاتا ہے
درد کی زمینوں میں غم کی فصل بونے سے
۔
حادثات پیہم کا یہ مآل ہے شاید
کچھ سکون ملتا ہے اب سکون کھونے سے
پیرزادہ قاصم