سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں
کہ ٹوٹی تو بہت بکھری نہیں میں
رکھی ہے گفتگو اس سے ہر اک پل
سخن جس سے کبھی رکھتی نہیں میں
یہ چوٹ اپنے ہی ہاتھوں سے لگی ہے
کسی کے وار سے زخمی نہیں میں
کروں کیوں یاد تیرے خال و خد اب
شکستہ آئنے چنتی نہیں میں
عجب تھی رہ گزر بھی ہمرہی کی
قدم رکھ کر کبھی پلٹی نہیں میں
جو پہنچی ساحلوں پر تب کھلا ہے
کہ اب وہ تشنگی رکھتی نہیں میں
شاہدہ حسن