غزل
سبک سری میں بھی اندیشۂ ہوا رکھنا
سلگ اٹھے ہو تو جلنے کا حوصلہ رکھنا
نئی فضا میں نئے پر نکالنے ہوں گے
فلک کو زیر زمیں کو گریز پا رکھنا
تمہارے جسم کے صندل کی آبرو ہے بہت
ہجوم شوق میں رہ کر بھی فاصلہ رکھنا
زمین پھول فضا نور آسمان دھنک
انہیں میں رہنا مگر رنگ بھی جدا رکھنا
تمہارے شہر کے لب بستہ شاعروں میں سے ہوں
مرے لیے بھی کوئی حرف بے نوا رکھنا
یہ زینتیں بھی عجب ہیں یہ سادگی بھی عجب
ریا کے سارے ہنر جسم پر سجا رکھنا
نہ جانے کون سا کس وقت کام آ جائے
سو ایک جیب میں بت ایک میں خدا رکھنا
باقر نقوی