ستارے میری محبت کے جب قطار میں تھے
جمالِ فکر و تخیل بھی اختیار میں تھے
میں اپنے گھٹنوں پہ آیا تو یہ کھلا مجھ پر
یہ میرے اپنے اسی کے تو انتظار میں تھے
وہ خواب آج بھی زندہ ہیں میری آنکھوں میں
دعائے نیم شبی جو ترے حصار میں تھے
فصیلِ ہجر نے پیروں کے لے لیے بوسے
نجانے کیسی محبت کے ہم خمار میں تھے
ہماری تشنہ لبی لے ہی آئی ایسی جگہ
زمین زادے جہاں کوششِ فرار میں تھے
تمام رات پلاتے ہیں اشک تکیوں کو
نہیں تھے ایسے یہ پردیسی جب دیار میں تھے
ہزاروں سسکیاں آنسو دبی دبی آہیں
یہ سنگ میل بھی اس راہِ اعتبار میں تھے
ابھی تلک نہیں اترے منڈیرِ حسرت پر
وہ نامہ بر جو محبت کی رہ گزار میں تھے
وہ لے کے آؤں گا قرطاس تیری آنکھوں میں
جو نقش دامِ محبت کے تار تار میں تھے
بہ شکلِ موجِ نسیمی رہیں گے آنکھوں میں
یہ لوگ جتنے گرفتار میرے پیار میں تھے
نسیم شیخ