ستارے پلکوں پہ جلوہ گر تھے شکست عزم فغاں سے پہلے
غم نہاں سے زمانہ واقف تھا شرح سوز نہاں سے پہلے
ہماری ہی سعئ جستجو نے سراغ منزل دیا جہاں کو
تلاش منزل میں ہم روانہ ہوئے تھے ہر کارواں سے پہلے
پسند آیا نہ بجلیوں کو کوئی جو کرتیں طواف ان کا
ملے کئی اور بھی نشیمن انہیں مرے آشیاں سے پہلے
ستم رسیدوں کی انجمن میں چھڑے ہیں جب ظالموں کے چرچے
تمہارا نام آ گیا ہے اکثر زبان پر آسماں سے پہلے
انہیں یہ ضد ہے سنیں گے میری زباں سے میرا فسانۂ غم
میں سوچتا ہوں فسانۂ غم سناؤں بھی تو کہاں سے پہلے
تمہاری خلوت کدے کے پردے اٹھے ہوئے ہیں درست لیکن
چھڑا تو لوں دامن نظر کو تحیر بیکراں سے پہلے
غرض کے بندے ہیں اہل عالم نہیں کوئی با وفا جہاں میں
نہ کیجیے فیصلہ ابھی یہ نصیرؔ کے امتحاں سے پہلے
نصیر کوٹی