Suroor e Ishq ki Masti kahan Hay Sab kay lyee
غزل
سرور عشق کی مستی کہاں ہے سب کے لیے
وہ مجھ میں جذب ہوا آ کے ایک شب کے لیے
وہ ایک کرب حسیں جو مجھے ہوا ہے عطا
نہ تیرے رخ کے لیے ہے نہ تیرے لب کے لیے
کبھی تو الٹے سر عام وہ نقاب اپنی
ترس رہے ہیں سبھی بادۂ عنب کے لیے
ترے وصال کی کب آرزو رہی دل کو
کہ ہم نے چاہا تجھے شوق بے سبب کے لیے
دل حزیں کہ دو عالم نہیں بہا جس کی
لٹایا میں نے اسے تیری ایک چھب کے لیے
وہی کرن جو سر چرخ رہ گئی تنہا
وہ سوگ بن گئی تاروں کے ہر طرب کے لیے
عظیمؔ عشق شہ دو سرا بسا دل میں
وہی عجم کے لیے ہے وہی عرب کے لیے
عظیم قریشی
Azeem Qureshi