سر سے پا تک گھائل ہو
مذہبِ عشق کے قائل ہو؟
پھر میں ہوش گنوا دیتا ہوں
نشّہ جب بھی زائل ہو
لمحہ لمحہ مرنے والے
جینے پر کیوں مائل ہو؟
فقر کا لاچہ پہنے خوش ہو
پریم گلی کے سائل ہو؟
دنیا سے کیا لڑتے، تم خود
اپنی راہ میں حائل ہو
دفترِ دل کے اک گوشہ کی
جیتی جاگتی فائل ہو
دان میں جان تو یوں دیدی ہے
پریت نگر کے رائل ہو؟
چھن چھن کرتی یاد ہے اُسکی
پاؤں میں جیسے پائل ہو
دیکھ کہ ہنستی آنکھیں اُس کی
جیسی خلش ہو ، زائل ہو
سہیل ضرار خلش