سر پھرے لمحے رسیلے ہو گئے
جاگتی آنکھوں میں سپنے بو گئے
دھوپ کو ملتا کہاں میرا پتہ
شہر کی سڑکوں پہ سائے کھو گئے
گمشدہ جذبات ہجرِ یار کے
تتلیوں کا لمس پا کےسو گئے
ختم سورج کا تماشا کب ہوا
کون سے بادل دریچے دھو گئے
جگنوئوں کی روشنی کو کیا ہوا
ہنستے گاتے پیڑ کیسے سو گئے
وقت کی رفتار اُس دم رک گئی
یار کی بانہوں میں جب ہم کھو گئے
جل اٹھا عابد ہوا کے شہر میں
ذات کے بازار روشن ہو گئے
حنیف عابد