سر پہ بھیلا آسماں تھا اور میں
ڈگمگانے کا سماں تھا اور میں
بے بسی سے دیکھتا تھا ہر طرف
وہ کہ مجھ سے بد گماں تھا اور میں
ہو رہی تھیں پتھروں کی بارشیں
ایک شیشے کا مکاں تھا اور میں
ہر گھڑی لڑنا پڑا تھا موت سے
ہر گھڑی اک امتحاں تھا اور میں
عافیت سر کو بچانے ہی میں تھی
سامنے کوہ گراں تھا اور میں
دیکھ کر آنکھوں میں اس کی کیا کہوں
ایک حسرت کا سماں تھا اور میں
بیٹھ کر روتا تھا اپنی پیاس کو
سامنے دریا رواں تھا اور میں
اک اکیلا کس طرف جاتا بھلا
ساتھ اس کے کل جہاں تھا اور میں
کیسے ٹھکراتا میں راہ زندگی
وقت میر کارواں تھا اور میں
سہیل ثاقب