Siskiaan Lenay Lagi Hay chandni
غزل
سسکیاں لینے لگی ہے چاندنی
کس مصیبت میں پڑی ہے چاندنی
آسماں سے درد لیکر آئی تھی
پھول صورت کھل رہی ہے چاندنی
راستوں پر شور ہے احباب کا
خامشی سے سن رہی ہے چاندنی
وقت نے آواز دی ہے پھر مجھے
میرا رستہ دیکھتی ہے چاندنی
تہمتوں کی رت گذر جانے کے بعد
سب کے چہروں پر سجی ہے چاندنی
رات بھر کرتا رہا میں انتظار
تب کہیں جا کر کھلی ہے چاندنی
کیوں یہ سارب آنگنوں میں آج بھی
گنگناتی ناچتی ہے چاندنی
رشید سارب
Rasheed Sarib