غزل
سفر میں جب خیالِ یار کا مضمون ہوتا ہے
تو ہر مضمون اس کی گرد کا ممنون ہوتا ہے
کہیں سر کا کہیں دستار کا ممنون ہوتا ہے
وہ دیوانہ کہاں ہوتا کہ جو مجنون ہوتا ہے
جو پہچاتا ہے ہر آواز کو شہرِ تمنا تک
ہر اک مضمون میں ایسا کوئ مضمون ہو تا ہے
ذرا بھی انسیت ہوتی ہے کوئے یار سے جس کو
وہاں رہتا کہاں ہے وہ جہاں مدفون ہو تا ہے
یہی تو سوچ کر حد سے گزر جاتے ہیں دیوانے
کہاں حد سے گزرنے کا کوئ قانون ہو تا ہے
وطن کی خاک تو اہلِ وطن وہ خاک ہوتی ہے
کہ جس کا ذرہ زرہ اپنا خود مدیون ہوتا ہے
بدل کر رہ گئیں ہیں کس قدر قدریں زمانے کی
وہی ذی قدر اب ہوتا ہے جو مطعون ہوتاہے
سوائے اس کے اپنی ذات میں جو خود سمندر ہو
سمندر کب کسی کے نام سے معنون ہوتا ہے
کہانی رنگ پر عباس حیدر تب ہی آتی ہے
کہ جب دستار کی خاطر انا کا خون ہوتا ہے
عباس حیدر زیدی