سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سے
نہ کوئی سنگ ہی آیا نہ پھول ہی برسے
میں آگہی کے عجب منصبوں پہ فائز ہوں
کہ آپ اپنا ہی منکر ہوں اپنے اندر سے
نہ جانے کس کو یہ اعزاز فن ملا ہوگا
تمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پتھر سے
اب اس کے موج و تلاطم میں ڈوبنے سے نہ ڈر
گہر بھی تجھ کو ملے تھے اسی سمندر سے
یہ اہتمام چراغاں بھی کس کمال کا ہے
دیے جلے ہیں تو میں بجھ گیا ہوں اندر سے
عجب سماں تھا کہ اب تک ہیں زخم زخم آنکھیں
میں کور چشم بھلا آگہی کے منظر سے
رضی اختر شوق