سمجھ رہے تھے کہ ٹل رہے ہیں
عذاب روحوں میں پل رہے ہیں
بہار میں کیسی بے رخی ہے
پرندے تلخی میں ڈھل رہے ہیں
عداوتوں کے چھڑے ہیں قصے
ذہن میں چہرے ابل رہے ہیں
ہیں دست بستہ عذاب سارے
سلگتے لمحوں پہ چل رہے ہیں
یقین مانوکہ آستیں میں
تمہارے جیسے ہی پل رہے ہیں
نئی محبت تمہیں مبارک
ہم اپنے رستے بدل رہے ہیں
بہار چہروں کی سر زمیں پر
خزاں کے وحشی مچل رہے ہیں
خراماں چلتے ہیں جو ذہن میں
سر ان کے قبضے میں شل رہے ہیں
ارم ایوب