غزل
سمندروں کے سفر پر ہیں رہنما بھی نہیں
ہم ایسے لوگوں کی کشتی کا ناخدا بھی نہیں
یقین دل کے لیے عالم گمانی میں
اسے پکار رہا ہوں تو سن رہا بھی نہیں
یہ کس امید پہ آنکھوں میں رقص باقی ہے
تو جا چکا ترے آنے کا آسرا بھی نہیں
الگ الگ سی ہے سمتوں کا اب سفر درپیش
تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ سے جدا بھی نہیں
ہمیں سے رونق بازار عشق قائم تھی
ہمارے بعد تو شہروں میں کچھ بچا بھی نہیں
فضا میں حبس ہے جنگل اداس لگتا ہے
عجیب دکھ ہے پرندوں کا چہچہا بھی نہیں
زباں کی داد مگر تیرے لب تلک آؤں
میں ایک لفظ میں سمٹی ہوئی دعا بھی نہیں
تم ایک عمر کی کوشش میں رائیگاں گزرے
حریم دل میں چراغ وفا جلا بھی نہیں
میں اپنے قتل کا الزام کس کے سر رکھوں
یہاں تو میرے سوا کوئی دوسرا بھی نہیں
قمر عباس قمر