غزل
سنا کے غم کا ترانہ سنو گیا ہے وہ
سروں کے اشک سے دنیا کو دھو گیا ہے وہ
ہے اس کے حسن کے دریا میں ایسی طغیانی
ہمارے ہوش کی بستی ڈبو گیا ہے وہ
ہر اک قدم پہ ہے ٹھوکر میں زندگی اس کی
اندھیرے جسم کے صحرا میں کھو گیا ہے وہ
تھکا تھکا سا بدن ہے مرے تخیل کا
شکستہ خواب کے بستر پہ سو گیا ہے وہ
دیار انجم و خورشید سے وہ آیا تھا
بگولہ بن کے خلاؤں میں کھو گیا ہے وہ
تم اشتعال کے شعلوں کو اور بھڑکاؤ
لہو کو صبر کے پانی سے دھو گیا ہے وہ
نظارہ دیکھنے آیا تھا جو بہاروں کا
بدن کو اپنے لہو سے بھگو گیا ہے وہ
عبدالمتین جامی