سوال شکر و شکایت کا اب رہا ہی نہیں
وہ کج شعار مری سمت دیکھتا ہی نہیں
کسی میں حوصلۂ ترک مدعا ہی نہیں
یہ وہ محاذ ہے جس پر کوئی ڈٹا ہی نہیں
تھما جو خیر سے طوفاں تو ہے بھنور آگے
مرے خلاف سمندر بھی ہے ہوا ہی نہیں
وہ جس کا خوف گناہوں سے روک دیتا ہے
ہمارے دور میں ایسی کوئی سزا ہی نہیں
جہاں سے پیچ و خم راہ کا ہوا آغاز
پلٹ کے ہم نے جو دیکھا تو رہنما ہی نہیں
جبین شوق بتا اب کہاں کروں سجدہ
مجھے تلاش تھی جس کی وہ نقش پا ہی نہیں
فضا ہے دنگ سماعت کے اس تغیر پر
کوئی صدائے محبت سے آشنا ہی نہیں
نصیرؔ جا کے تری انجمن سے لوٹ آیا
گیا تھا جس کے ارادے سے وہ کہا ہی نہیں
نصیر کوٹی