غزل
سوال پوچھے ہیں شب نے جواب لے آؤ
نئی سحر کے لئے آفتاب لے آؤ
نہ رات ہے نہ خیالات شب نہ خواب سحر
جو دن کی جوت جگا دیں وہ خواب لے آؤ
برا نہیں ہے جو لکھ جائیں اب بھی چند ورق
جو آج تک ہے ادھوری کتاب لے آؤ
نقاب الٹتی ہے چہرے سے روز تازہ سحر
نگاہ میں بھی کوئی انقلاب لے آؤ
بہار آئے گی گلشن میں سیر گل ہوگی
نظر میں فکر میں دل میں شباب لے آؤ
سعید الظفر چغتائی