غزل
سورج چھپا اک اک گل منظر بکھر گیا
شعلہ سا کوئی دل میں اتر کر بکھر گیا
تھا چاندنی کا جسم کہ شیشے کا تھا بدن
آئی ہوا تو گر کے زمیں پر بکھر گیا
کل ہنس کے ریگ دشت سے کہتی تھی زندگی
میں نے چھوا ہی تھا کہ وہ پتھر بکھر گیا
ندی پہ ایک نرم کرن نے رکھا جو پاؤں
چاروں طرف صدا کا سمندر بکھر گیا
جعفرؔ ہمارا دل بھی ہے وہ آئنہ کہ بس
کھائی ذرا نگاہ کی ٹھوکر بکھر گیا
جعفر شیرازی