سوچتا رہتا ہوں تکمیل وفا کیسے ہو
آدمی بھی وہ نہیں ہے تو خدا کیسے ہو
عشق کو حوصلۂ ترک وفا کیسے ہو
لفظ معنی کی صداقت سے جدا کیسے ہو
میں تو پوچھوں گا کہ تم سب کے خدا کیسے ہو
میری آواز فرشتوں کی صدا کیسے ہو
ایک غم ہو تو بکھر جائے مرے چہرے پر
غیر محدود مصائب ہیں ضیا کیسے ہو
سوچنے والوں کی نیت کو خدا ہی جانے
بات والوں کو نہیں فکر وفا کیسے ہو
اس نے مجبور وفا جان کے منہ پھیر لیا
مجھ سے یہ بھول ہوئی پوچھ لیا کیسے ہو
اک سلگتا ہوا دل تم سے جلایا نہ گیا
جانے تم مخلص ارباب وفا کیسے ہو
کس کی صورت میں نہیں جلوۂ خون مزدور
خون مزدور کی قیمت بھی ادا کیسے ہو
عشق ناواقف آداب طلب ہے انجمؔ
حسن آمادۂ اظہار وفا کیسے ہو
انجم فوقی بدایونی