سوچ کے جب بھورے بادل چھٹ گئے
سارے آنگن روشنی سے اٹ گئے
سر پھرے جذبوں کو پاؤں جب ملے
راستے کے سارے پتھر ہٹ گئے
آسماں سے آ رہی تھیں کرچیاں
ہم زمیں زادوں کے چہرے کٹ گئے
ہجر کے ہم آئنہ خانے میں تھے
عکس سارے زاویوں میں بٹ گئے
رات میں گننے ستارے اور بس
دن تری حسرت میں اپنے کٹ گئے
شہر کی اجلی فضا کو کیا ہوا
دھول سے شفاف چہرے اٹ گئے
جھاڑیاں پہنی ہیں عابد پاؤں میں
آبلے تو راستوں میں کٹ گئے
حنیف عابد