غزل
سو دنیا میں جینا بسنا دل کو مرنے مت دینا
یار کرایہ دار کو گھر پر قبضہ کرنے مت دینا
جاب ضروری ہوتی ہے صاحب مجبوری ہوتی ہے
جاب کے گھن چکر میں پڑ کر خواب بکھرنے مت دینا
ایسی لہریں ایسی بحریں کب قسمت سے ملتی ہیں
اچھے مانجھی اب نیا کو پار اترنے مت دینا
ایک دفعہ کا ذکر ہے دونوں اک لاہور میں یکجا تھے
ایک دفعہ کا ذکر ہے اس کو کبھی مکرنے مت دینا
مال پہ رش کافی ہوگا بس ایک دو کش کافی ہوگا
اب کسی کار کو کسی سوار کو سر سے گزرنے مت دینا
مردہ نعرے لگانے والے زندہ گوشت جلا سکتے ہیں
اس بے انت ہجوم کو خود سے زیادہ ڈرنے مت دینا
ادریس بابر