۔۔ سُورج کو دَیکھتے ہی پِگھلنے لگا ہوں میں
اور چاندنی میں رُوپ بَدلنے لگا ہوں میں
۔۔ میں رَیت بٙن گیا ہوں چَمکتی ، سُلگتی رَیت
ہاتھوں سے اپنے گویا پِھسلنے لگا ہوں میں
۔۔ آنکھوں میں بَس گئی تھی یہ صحرا کی تَشنگی
دٙریا کو دیکھتے ہی مَچلنے لگا ہوں میں
۔۔ سَرشاری و خمار میں گزری تمام عمر
اب ہٙوش آ رہا ہے سَنبھلنے لگا ہوں میں
۔۔ جیسا تُو چاہتا تھا ، میں وَیسا نہ بَن سکا
تیرے لیے ہی خود کو بَدلنے لگا ہوں میں
۔۔ حَسرت خرید لائی ہے گڑیا دُکان سے
گڑیا سے کھیلتا ہوں بَہلنے لگا ہوں میں
۔۔ ڈالی نظر جو عمر ِ گزشتہ پہ اِک ، عظیم
بے چٙارگی سے ہاتھوں کو مَلنے لگا ہوں میں
یونس عظیم