loader image

MOJ E SUKHAN

سہیل احمد ہارون آباد سے ایک خاموش احتجاج، ایک روشن خیال اذیت

ایک خاموش احتجاج، ایک روشن خیال اذیت

انجم سلیمی

ہارون آباد سے جواں فکر شاعر سہیل احمد کی شاعری محض اشعار کا مجموعہ نہیں، بلکہ زخموں کی ایسی نقش گری ہے جو لفظوں کے تیشے سے وجود کے پتھروں پر کی گئی ہو۔ وہ ہمیں اپنی زمین کی گرد، سماج کی دھند، اور روح کے شکستہ آئینوں میں اتارتے ہیں—جہاں ہر شعر ایک کٹا ہوا سر ہے، ہرمصرع ایک آئنہ جس پر غلاف چڑھا ہے، اور ہر تاثر ایک مہکتا جسم ہے جس میں بجھی ہوئی روح چھپی ہے۔
"میں اس سے پوچھتا رہتا تھا تم کہاں کی ہو”
یہ سوال محبوب سے بھی ہو سکتا ہے، ماضی سے بھی، اور شاید اپنی شناخت سے بھی۔ اس کی حیرت کدہ، وقت کا وہ دھندلا کمرہ ہے جہاں چراغ جلنے سے پہلے دیا سلائی آنکھ جھپکتی ہے—یعنی تخلیق لمحہ بہ لمحہ جنم لیتی ہے۔
"میں لباسوں کے تقدس سے ورا سوچتا ہوں…”
یہ صرف معاشرتی پردوں کی بات نہیں، یہ سوچ کے اس سفر کی علامت ہے جو ظاہر کی دیوار پھلانگ کر باطن کے صحن میں جا اترتی ہے۔
"پوششِ جسم سے عریانی بہت ہوتی تھی”
یہ جملہ تہذیبی منافقت کے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے۔
سہیل کی شاعری میں آئنہ، گرد، چراغ، جگنو، مفلر، رسی اور کاسہ جیسے الفاظ بار بار آتے ہیں۔ یہ محض علامتیں نہیں، بلکہ وہ استعارے ہیں جو اس کی دنیا کے اجزائے ترکیبی بن چکے ہیں۔
"میں سانس لیتے ہوئے گرد کھینچ لیتا ہوں…”
یہ نہ صرف ماحول کا بیان ہے بلکہ وجودی بحران کا شعری خلاصہ ہے۔ وہ قبیلے کا پہلا آدمی ہے جو روشن خیال مرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یعنی وہ کسی نئے فکری ارتقاء کا اولین شہید ہے۔
اور پھر یہ اشعار:
اپنی تخلیق میں خود ساتھ رہا ہوں اپنے
ورنہ یہ کام اکیلے تو نہیں ہو سکتا
یہ سہیل کی خود آگاہی کا بیان ہے۔ شاعر اپنی تخلیق کے عمل میں تنہا نہیں، اس کے ساتھ ایک زمانہ ہے، اس کی روح کے مختلف پرت ہیں جو ہر شعر میں بولتے ہیں۔
سہیل احمد کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شعر کہنا صرف کہنا نہیں ہوتا، جینا ہوتا ہے۔ وہ صرف لکھتا نہیں، خواب کی ترسیل کرتی آنکھ کو قبائے حسن پہناتا ہے—یعنی حسن کو خواب کی زبان دیتا ہے، اور خواب کو حسن کی صورت۔
سہیل کی شاعری نسل نو کی اس آواز کا اشاریہ ہے جو نہ صرف سوال کرتی ہے بلکہ خود کو ان سوالوں میں تحلیل بھی کر دیتی ہے۔ اس کی شاعری میں موجود "دائرہ”، "مرکزہ”، "دشت”، "ستارہ” اور "ستائش” جیسے الفاظ نئی جمالیات کی کھوج ہیں۔ وہ المیے کو شاعری کے قالب میں ڈھالتا ہے اور ہر سطر کو ایک ایسا لمحہ بنا دیتا ہے جو قاری کو دیر تک تھامے رکھتا ہے۔
یہ شاعری اندھیرے سے روشنی کی طرف نہیں بلکہ روشنی کے پس منظر میں چھپے اندھیرے کی طرف ایک سفر ہے۔
سہیل احمد—تم مرثیہ گو نہیں، تم روشنی کے زخم ہو۔
چند منتخب اشعار سے آپ بھی لطف اٹھائیے دوستو
میں اس سے پوچھتا رہتا تھا تم کہاں کی ہو
پھر ایک دن مرا حیرت کدے میں جانا ہوا
چراغ جلنے سے پہلے دیا سلائی نے
نظر نظر میں دیے کا وجود پیدا کیا
میں لباسوں کے تقدس سے ورا سوچتا ہوں
پوششِ جسم سے عریانی بہت ہوتی تھی
آئنوں کو غلاف پہنا دو
پھر رہے ہیں کٹے سروں والے
مہکتے جسموں میں روپوش ہیں بجھی روحیں
یہ کارگاہ منادی ہے ایک خطرے کی
میں اس کی یاد کا مفلر گلے میں پہنے ہوئے
سمے کی سرد ہواؤں سے ناک ڈھانپتا ہوں
خواب کی ترسیل کرتی آنکھ کو اک زعم ہے
ایک بڑھیا کو قبائے حسن پہنائی گئی
ہر طریقے سے اسے کھول لیا ہے میں نے
اب یہ بکھراؤ مجھے سونے نہیں دیتا ہے
یہ شامِ رنج مجھے مرکزے میں رکھ کے سہیل
بنا رہی ہے مرے گرد دائرہ اُس کا
معاملات نئی راہ اختیار کریں
خدا وجود میں آئے بشر تصور میں
میں اسے کھینچنے ہی والا تھا
پھر کوئی لہر لے گئی اس کو
رسیاں کھول جسم ٹوٹتا ہے
یا مرے ساتھ باندھ لے خود کو
تمام رات سنورنے کا کام کرتے تھے
وہ لوگ جن کو کوئی دن میں دیکھتا بھی نہ تھا
میرے کاسے میں ایک رخنہ ہے
کچھ بھی بچتا نہیں بچانے سے
وہ خاکروب مرے دشت آ گیا اک دن
تمام ریت مری لے گیا صفائی میں
رات کی آخری نشانی ہے
ایک جگنو مَرا ہوا مرے پاس
کٹورے بھر کہ سمندر میں ڈال دیتے ہیں
کہ مچھلیوں سے تعلق بنا رہے اپنا
میں سانس لیتے ہوئے گرد کھینچ لیتا ہوں
یہ وہم دشت سے باہر نکال لایا مجھے
میں راستے میں پڑا گرد ہو گیا اور وہ
سفر کا ذہن بناتے ہوئے بھی ڈرتا تھا
چراغِ ۔ چشم جلایا گیا سکوتِ شب
کہ تجربہ تو کریں ہم ہوا کی دہشت کا
میں قبیلے کا پہلا آدمی ہوں
جس نے روشن خیال مرنا ہے
گریز کرتی ہوئی روشنی چراغوں سے
مجھے بلاتی ہے آؤ تمہیں ستارہ کروں
اپنی تخلیق میں خود ساتھ رہا ہوں اپنے
ورنہ یہ کام اکیلے تو نہیں ہو سکتا
عکس بندی کی طرح جسم نوردی کی طرح
تو مرے ساتھ رہے آئنہ تمثال مرے
شاعر ؛سہیل احمد 🖤