loader image

MOJ E SUKHAN

سید باقر حسن زیدی شاعرِ اہلِ بیت

 باقر حسن زیدی شاعرِ اہلِ بیت

تحریر  زیشان زیدی   

آج شاعر ِ اہلبیت جناب باقر زیدی کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے۔ باقر زیدی 26 ستمبر 1936 کو ہندوستان کے بھرت پور میں ایک زیدی سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس میں مشہور اور قابل ذکر شاعر بھی شامل تھے۔ باقر زیدی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں آسودگی ہی آسودگی تھی . خاندانی وجاہت تھی.نسبی نجابت تھی اور علم و دانش کی حکمت بھی تھی۔ ان کے والد گرامی سید فرزند حسین زیدی فیض بھرتپوری اور دادا سید اکرام حسین کلیم بھرت پوری مشہور شاعر تھے۔ بزم آفندی اور علامہ نجم آفندی کا تعلق بھی باقر زیدی کے خاندان سے تھا۔ اس حقیقت کا اظہار اپنے پہلے مرثیے کے مطلع میں کیا



جس گھر میں آنکھ کھولی وہ گھر سیدوں کا تھا
جس شاخ کا ثمر ہوں ، شجر سیدوں کا تھا
ہر آن مجھ پہ فیض ِ نظر سیدوں کا تھا
گویا سرشت میں ہی اثر سیدوں کا تھا
ماحول میں جو دھوم خدا کے ولی کی تھی
گھٹی میں جو ملی، وہ محبت علیؑ کی تھی

پیدا ہوا تو خیر سے عالی نسب ملا
وہ نسبتیں ملی کہ شرف کا سبب ملا
ماحول میں بسا ہوا ذوق ِ ادب ملا
عالی منش گھروں سے جو ملتا ہے سب ملا
اسلاف رہِ روان رہ ِ مستقیم تھے
رہتا خموش کیوں میرے دادا کلیمؔ تھے

دادا کی طرح باپ بھی ذاکر فلک مقام
کہتے تھے مرثیہ بھی جو ہر سال لا کلام
پڑھتے تھے مجلسوں میں بصد شان و احتشام
میرا بھی خیر سے ہے ، اسی قصر میں قیام
اولاد پر بھی سایہِ شاہِ نجف رہے
میرے خلف میں بھی یونہی باقی شرف رہے


اگست 1947 کے فسادات کے دوران ، اس کا کنبہ اپنا وطن چھوڑ کر حیدرآباد دکن میں آباد ہوگیا ، جس کے کچھ دن بعد ہی پاکستان نے برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کی۔ 1947 کی تقسیم نے باقر زیدی کی زندگی کو متاثر کیا۔ بھرت پور میں جھڑپوں کے دوران اپنے چچا کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پانچ ماہ کے بعد ، اس خاندان نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ، جہاں باقر زیدی نے اپنی زندگی کے اگلے 42 سال گزارے ، اس سے پہلے انہوں نے اپریل 1990 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے میری لینڈ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے پہلے ہی ہجرت کی۔


نہ جانے میرا مقدر ہیں ہجرتیں کتنی
میں چار دن بھی سکوں سے نہ ایک گھر میں رہا

نمونہ رباعیات و قطعات

کیا کبھی کی ہے یہ خواہش کہ دفینہ دے دے
کشتی نوح کی مانند سفینہ دے دے
میں ہوں راضی برضا ، تو مجھے کچھ دے کہ نہ دے
اپنے محبوب کی مدحت کا قرینہ دے دے

دانش کو آگہی سے ُجدا کر کے دیکھیے
سورج سے روشنی کو ُجدا کر کے دیکھیے
ذمہ ہے میرا دن کو جو تارے نظر نہ آئیں
اسلام سے علیؑ کو ُجدا کر کے دیکھیے

وہ راہ رو جو کوئی راہ بر نہیں رکھتے
وہ بے خبر ہیں کہ اپنی خبر نہیں رکھتے
نہیں ہے مہر امامت کا انتظار جنہیں
وہ شب گزیدہ شعور سحر نہیں رکھتے

شاعری باقر زیدی کی خاندانی میراث تھی اور اس طرح اس کے اندر ہمیشہ ہی ادبی چنگاری رہتی تھی کہ اس کی روشنی کو کھلے عام میں پھیلانے کا انتظار کرتا تھا۔ باقر زیدی کے والد مفلوج ہونے کی وجہ سے اپنی تقریر کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کے بعد اس چنگاری کو روشن کیا اور اس کے نتیجے میں باقر زیدی کے اندرونی شاعر نے شاعری کی اس خاندانی میراث کو جاری رکھنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے نکل آئے۔

فرزند کا فرزند ہوں، باقِرؔ ہوں میں
صد شکر کہ شبّیر کا ذاکِر ہوں میں
میں فیضؔ کا فیض ہوں بہ منشاۓ کلیمؔ
اک سلسلہ سخن کا شاعِر ہوں میں

باقر زیدی انہی ہم عصر شعراء میں سے ایک تھے جو اردو شاعری کی مختلف شکلوں میں اپنے خیالات کو حاصل کرنے کے لئے لکھتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے زندگی کے آخر میں ہی شاعری کا آغاز کیا ، لیکن ان کے تمام کام بہترین اور قابل تحسین ہیں۔ ان کے پاس اردو ادب کا بھرپور ذخیرہ ہے جس نے اردو زبان کو فروغ دیا اور آنے والے برسوں تک اسے فائدہ ہوتا رہے گا۔ شہاب کاظمی صاحب فرماتے ہیں "بعض شاعروں کو ایک مدّت تک پڑھنے اور سننے کے بعد بھی یہ احساس رہتا ہے کے سنِ بلوغت کی طرف ان کا سفر ابھی جاری ہے. مگر باقر زیدی کی شاعری کا آغاز ہی سنِ بلوغ کا حسن و جمال اپنے اندر سموۓ ہوۓ تھا’

جونؓ افریکا کا باشندہ ، وہ اک حبشی غلام
خدمتِ آخر کو جس کی آپ پہنچے ہیں امامؑ
ایک فضہؓ ہیں جنہیں حسنینؑ کرتے ہیں سلام
زینبؑ و کلثومؑ ماں کہہ کے پکاریں صبح و شام
رنگ و نسل و قوم کے سب حل یہاں موجود ہیں
کربلا سے ہٹ گئے تو راستے مسدود ہیں

١٩٩٠ میں بھرتپور کی خاندانی عزاداری ان کے ساتھ ساتھ ہجرت کرتی ہوئی کراچی سے میری لینڈ ، امریکہ آئ اور اسی سال کے محرم سے نو تصنیف مرثیہ کی مجلس کی داغ بیل ڈالی بغیر کسی ناغے کے آج تک اسی عقیدت و احترام کے ساتھ جاری و ساری ہے اور دو سو سال سے پرانی ہو گئی ہے

الله رے حسینؑ کی مجلس کا اہتمام
ہجرت کی سختیوں میں بھی جاری رہا یہ کام
رہنے کو بھی جگہ نہ میسر تھی لا کلام
پر دل کو تھی لگی ، تو ہوئی نصرتِ امام
فصلِ عزا کا ایک بھی ناغہ نہیں ہوا
اس انقلاب میں بھی تو وقفہ نہیں ہوا

١٩٩٥ میں چھوٹے بھائی جعفر زیدی کی وفات کا غم اٹھانا پڑا . یہ ٢ رباعیات غم میں ڈوبی ہوئ ہیں


کیوں ہم نے زیادہ عمر پائی بھائی
اک قہر ہے بھائی کی جدائی بھائی
تم آج کی مجلس میں بہت یاد آے
پوتے نے رباعی جو سنائی بھائی

یوں ذکر تو ہوتا ہی ہے اکثر گھر میں
خوابوں سے نظر آتے ہیں منظر گھر میں
آنکھیں بہت ڈھونڈھتی ہیں ہر سال تمھیں
جب نصب علم ہوتے ہیں جعفرؔ گھر میں


اپنے مرثیے "اردو” میں الف سے یے مجہول تک سرے حروف تہجی کا منظم بیان کیا ہے


الف ، اردو میں ہے الله کا ، ایماں کی طرح
ب سے بارش ہے کسی رحمتِ یزداں کی طرح
پ سے ہیں پنجتن پاک رگِ جاں کی طرح
ت سے تقدیس ہے تسبیحِ شماراں کی طرح
ٹ سے ٹوٹے ہوئے الفاظ بھی نازاں اس کے
ث سے ثابت ہے کہ سب ہی ہیں ثنا خواں اس کے

یوم ثقافت اردو کے موقع پر

خوب سے خوب ھے ہر عیب سے عاری اردو
صورت حسن بیاں رحمت باری اردو
ساری دنیا میں زبانوں پہ ھے جاری اردو
ہم ہیں اردو کے تو بیشک ھے ہماری اردو
ھے خبر سب کو کہ ہیں اور ہی خو بو والے
فخر ہے ہم کو کہ کہلاتے ہیں اردو والے

سب سماجوں سے سماج اپنا الگ ھوتا ھے
کل الگ ھوتا ھے آج اپنا الگ ھوتا ھے
ہر زمانے میں رواج اپنا الگ ھوتا ھے
اھل اردو ہیں مزاج اپنا الگ ھوتا ھے
قد و قامت سے کہیں کم نہیں ہونے پاتے
منفرد رہتے ہیں ہم ضم نہیں ھونے پاتے

مرثیے قلم میں کہتے ہیں

اس نے اقوال لکھے ، اس نے حدیثیں لکھیں
اس نے اعمال لکھے ، اس نے دعائیں لکھیں
عقد کے صیغے لکھے ، اس نے طلاقیں لکھیں
اس نے لکھی ہے اذاں ، اس نے نمازوں لکھیں
اس نے تعقیبیں لکھیں ، ورد ِ شب و روز لکھے
کربلا تیرے مصائب بڑے دل دوز لکھے

مرثیے رفتار سے ایک بند

ظلمتِ دہر میں انوارِ سحر ہے رفتار
جس میں ہر آن تغیر ہے ، وہ گھر ہے رفتار
جس کے قدموں میں ظفر ہے ، وہ سفر ہے رفتار
کسی پیکر کی مگر دستِ نگر ہے رفتار
سرِ رفتار کو دستارِ ہنر آج ملی
پاے محبوب الہی میں تھی معراج ملی

مولاے کائنات کی مدح

قاتلِ مرحب و عنتر ہے ، وہ صفدر ہے یہی
فاتحِ خندق و خیبر ہے ، وہ صفدر ہے یہی
تن تنہا بھی جو لشکر ہے ، وہ صفدر ہے یہی
نام جس شیر کا حیدرؑ ہے ، وہ صفدر ہے یہی
نیند آتی نہیں اس کو کبھی گلزاروں میں
بے خطر چین سے سو جاتا ہے تلواروں میں

جناب سیدہ کی مدح

سخن حدیث کے کانوں کی بالیاں ان کی
کلام ِ پاک کی آیات ، لوریاں ان کی
فرشتے پیسنے آتے ہیں چکیاں ان کی
فراز ِ عرش پہ جاتی ہیں روٹیاں ان کی
فضیلتوں کو کہاں تک کوئی چھپا لے گا
فدک نہیں ہے کہ قبضہ کوئی جما لے گا

صبح عاشور کا منظر

ہوئی جو عالمِ غربت میں صبح عاشورا
حسینؑ نے علی اکبرؑ کو دیکھ کر یہ کہا
جو منتظر ہے ہمارا وہ وقت آ پہنچا
اٹھو اٹھو ، علی اکبر ! اذان دو بیٹا
یہ پھول گلشن ِ ناپائیدار سے چن لیں
کہ ہم شبیہِ پیمبر سے اک اذاں سن لیں

مرثیے طاقت سے ٢ بند

صبر اک وار سے جب دستِ ستم توڑتا ہے
سطوتِ سلطنت و جاہ و حشم توڑتا ہے
آگے بڑھتے ہوے ظالم کے قدم توڑتا ہے
ظلم ، مظلوم کے قدموں ہی میں دم توڑتا ہے
دستِ جبر میں اگر جبر کی طاقت ہے بہت
دل ِ مظلوم میں بھی صبر کی طاقت ہے بہت

زور ہو زر کا جہاں ذکر ِ ابوذرؓ ، طاقت
دل پہ فوجوں کہ جو چھا جائیں بہتر(۷۲) طاقت
پیش سلطانی کوئی مرد ِ قلندر ، طاقت
زد پہ تلواروں کی سوے سر ِ بستر ، طاقت
نیند آجاے تو طاقت وہیں سونا بن جائے
اور گہوارے میں اثدر بھی کھلونا بن جائے

مرثیے کتاب میں کتاب کی مختلف شکلیں پیش کیں

موسیٰؑ کے ہاتھ میں ید بیضا ، کتاب تھی
الله سے ملی تھی یہ عنقا، کتاب تھی
فرعون کی خدائی میں میں ، یکتا کتاب تھی
سب زعم ِ کفر توڑ دیا ، کیا کتاب تھی
جادوگری کے کرتبِ َسفلی کو کھا گیا
موسیٰ کا علم جھوٹی خدائی کو کھا گیا

نکلے تھے جب مدینے سے لے کر خدا کا نام
ہر ہر قدم تھا راحت و حرمت کا اہتمام
کیا عز و احترام تھا ، کیا حسن انتظام
عبّاس اپنے ہاتھ سے دیتے تھے بھر کے جام
عباس سا دلیر و جواں ہم رکاب تھا
بھائی نہیں تھا ، نصرت ِ حق کی کتاب تھا

اپنے مرثیے "آیات ِ ُسخن” میں باقر زیدی نے صرف گیارہ اشعار میں اسماے الہی کو نظام کیا ہے جو ان کی قادر الکلامی کا ثبوت ہے اور پڑھنے والے کو مسحور کردیتا ہیں

وہ ممیت اور وہ مانع وہ مجیب اور شکور
وہ موخر وہ مصور وہ مہمین و صبور
وہ مقدم وہی نافع وہی ستار و غفور
پاس رہتا ہے سبھی کے ، وہ کسی سے نہیں دور

احد و واجد و ماجد ، صمد و نور و مجید
واحد و اول و تواب و معز ، عدل و معید
باعث و وارث و فتاح ، متین اور رشید
قادر و آخر و وہاب و حکم ، عفو و حمید
ضار و جبار و مقیت و متکبر باطن
خافض و قابض و قدوس و مزل و مومن

وہ خبیر اور کبیر اور بصیر اور حکیم
وہ رقیب اور حسیب اور لطیف اور حلیم
وہ وکیل اور حفیظ اور جلیل اور عظیم
وہ بدیع اور عزیز اور سمیح اور علیم
َملِک و منتقم و مالک و غفار و کریم
ُ ُمتعالی و ُمحی ، واسع و رحمان و رحیم

باسط و مقسط و رازق و رؤف و باری
ظاہر و مقتدر و خالق و مخصی باقی
جامع و رافع و قیوم و سلام و ہادی
غنی و مغنی و قہار و ودود و والی
مبدی وحی و قوی ، بر و والی ہے الله
ایک ہی نام بچا ہے سو علی ہے الله

باقر زیدی کے چھوٹے بھائی نسیم زیدی جو نسیم فروغ کے نام سے جانے جاتے ہیں باضابطہ شاعر ہیں اور غزل ، نعت ، سلام اور منقبت کہتے ہیں۔ پروردگار باقر صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرماۓ اور ان کے کل گھرانے پر معصومین کا سایہ قائم رکھے.