Seelab Guzr Raha Hay
نظم
یہ پانی ہے…..
یا خون کی لکیریں
سیلاب، میرے آنسوؤں میں ڈوبا
تو دریا مجھے کربلا دکھائی دینے لگا
اُلٹی چارپائی پر بہتے ہوئے کنبے کو
لہروں پر کھینچتا ہوا تنہا شخص
پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا رہا
اور ہیلی کاپٹر….
سیلابی علاقوں کا جائزہ لینے کے لیے اُڑتے رہے
پل ٹوٹے
تو دل کی طنابوں سے بندھے ہوئے مکانوں کے دروازے
اپنے مکینوں کی لاشوں کے ساتھ
مٹ چکی گلیوں میں تیرتے رہے
میں اُن بچوں کی آنکھوں کا سامنا کیسے کروں
جن کی پیاس پانی کا ریلا بہا کر لے گیا
اور پانی میں گھلی ہوئی مٹی سے نکلے ہوئے ہاتھ
میرا گریبان کھینچے رہے
آسمان کے آبگینے میں
سہما ہوا عکس لرزتا ہے
جس میں شکستہ چٹان پر
موت کا انتظار کرنے والے پانچ لوگوں کے سوا
سب مر چکے ہیں.
مقصود وفا
Maqsood Wafa