سیڑھیوں سے اُتر گئے ہیں کیا
مان کر بھی مکر گئے ہیں کیا
سانپ تو خیر تھے ہی دہشت ناک
رسیوں سے بھی ڈر گئے ہیں کیا
سانحے , جن کا منتظر تھا دل
اچھا ! وہ بھی گزر گئے ہیں کیا
آگ ہے آگ اور بجھی ہوئی آگ
داستاں گو تھے, مر گئے ہیں کیا
میں تو سچ بولنے کو آیا تھا
تیرے کپڑے اُتر گئے ہیں کیا
سنیے! چھوٹی سی قبر کا شکوہ
پھول پر پھول دھر گئے ہیں کیا
اب جو خود ساختہ اداسی ہے
زرد موسم گزر گئے ہیں کیا
ارشاد نیازی