Shakh e Weeran per Gul e Hairat khila deta hay Kon
غزل
شاخِ ویراں پر گلِ حیرت کھلا دیتا ہے کون
آہ لکھتا ہوں غزل اس کو بنا دیتا ہے کون
بے غرض ملتا نہیں کوئی کسی سے جب یہاں
آتشِ غم کو مری پھر یہ ہوا دیتا ے کون
روز آ جاتے ہو کرنے لاش پر ماتم مری
رنج و غم تم کو مرا آخر پتا دیتا ہے کون
شور برپا ہے درونِ ذات کچھ اس بات پر
ماں تو رخصت ہو گئی اس کو دعا دیتا ہے کون
چار دن بس غارِ حسرت میں رہو تم میرے ساتھ
جان جاؤ گے کہ مجھ کو راستہ دیتا ہے کون
ہم نفس یہ تو محبت ہے مری ورنہ یہاں
ہارنے والے کو بڑھ کر حوصلہ دیتا ہے کون
دوستوں کی بھیڑ میں تھے حاسدوں کے قافلے
ورنہ اپنے آپ کو ایسے سزا دیتا ہے کون
بس غنیمت کے کہ بے گور و کفن ٹھہرا نہیں
ورنہ بعد از موت چاہت کا صلہ دیتا ہے کون
گر تونگر ہو تو پھر اتنا بتادو تم مجھے
موت کو اپنا پتا میرے سوا دیتا ہے کون
آپ ہو موجِ غزل موجِ شفق موجِ شراب
مجھ کو یہ موجِ نسیمی کی ادا دیتا ہے کون
نسیم شیخ
Naseem Shaikh