Shah Kay Aagay na Muhtaat issay kia kehyee
غزل
شاہ کے آگے نہ مُحتاط، اِسے کیا کہیے
ھائے کیا شخص تھا سُقراط، اِسے کیا کہیے
ھم تو حیران و پریشاں ھیں تِری محفل میں
ایک عالم بنا بُقراط، اِسے کیا کہیے
وید رزّاقیِّ قُدرت پہ نہ لائے ایماں
اور کرتے رھے اِسقاط، اِسے کیا کہیے
واں بتدریج خُوشی اور گُھٹن یاں لیکن
غم کی بڑھتی گئیں اِقساط، ِاِسے کیا کہیے
نذرِ قرطاس کیا جو بھی ھوا محفل میں
باؤلا تھا کوئی خطّاط، اِسے کیا کہیے
عمر بھر جس نے کبھی گھر پہ توجّہ ھی نہ دی
ھے وہ شطرنج پہ مُحتاط، اِسے کیا کہیے
کوئی جچتا ھی نہ تھا اُس کے بدن پر ملبُوس
سب ھی عاجز ھوے خیّاط، اِسے کیا کہیے
ننھے ھاتھوں سے دُعائیں مِرے جینے کی کریں
کتنے معصوم ھیں اَسباط، اِسے کیا کہیے
ھائے مہنگائی نے یوں ڈیرہ جمایا ھے نظر
مُفلسی کی ھوئی افراط، اِسے کیا کہیے
نظر فاطمی
Nazar Fatmi