Shab ko Yeh Silsila Hay barsoo say
غزل
شب کو یہ سلسلہ ہے برسوں سے
گھر کا گھر جاگتا ہے برسوں سے
جانے کیا ہے کہ اس ندی کے پار
اک دیا جل رہا ہے برسوں سے
چلنے والے رکے رہیں کب تک
راستہ بن رہا ہے برسوں سے
روز مل کر بھی کم نہیں ہوتا
دل میں وہ فاصلہ ہے برسوں سے
اب کے طرزِ تعلقات ہے اور
یوں تو وہ آشنا ہے برسوں سے
سوچ یہ ختم ہو نہ جائے کہیں
دل یہی سوچتا ہے برسوں سے
کس پتے پر اسے تلاش کروں
شخص اک کھو گیا ہے برسوں سے
کس کو آواز دے رہے ہو سلیمؔ
شہر یہ سو رہا ہے برسوں سے
٭٭٭
سلیم احمد
Saleem Ahmed