غزل
شب کی آغوش میں جاگا ہوا گھر کس کا ہے
اس پہ آسیب نہیں ہے تو اثر کس کا ہے
ایسا سیلاب کہ جنگل کو بہا لے جائے
ایسے سیلاب میں بے برگ شجر کس کا ہے
انگلیوں میں اتر آئے ہیں بصارت کے رموز
تیرگی میں رہے مخفی یہ ہنر کس کا ہے
بے چراغی ہی رہی اپنے گھروں کی میراث
روشنی پوچھتی پھرتی ہے کہ در کس کا ہے
وہ مسافر تو گیا چھوڑ کے یادیں اپنی
کس کو بتلاؤں کہ یہ زاد سفر کس کا ہے
تم مری راہ سے ہو کر نہیں گزرے ہو تو پھر
نقش پا یہ طرف راہ گزر کس کا ہے
پھر سے مدہوش تمنا کے ہوئے ہوش بجا
ہم پہ عابدؔ یہ کرم بار دگر کس کا ہے
عابد جعفری