غزل
شرمندہ ہم جنوں سے ہیں اک ایک تار کے
کیا کیجیے کہ دن ہیں ابھی تک بہار کے
اے عمر شوق دیکھیے ملتا ہے کیا جواب
ہم نے کسی کا نام لیا ہے پکار کے
سرگشتۂ الم ہو کہ شوریدہ سر کوئی
احساں ہیں اہل شوق پہ دیوار یار کے
اللہ رے انتظار بہاراں کی لذتیں
گزری ہے یوں خزاں بھی کہ دن ہوں بہار کے
تابشؔ سکون درد سے تسکین مرگ تک
دل ہو اگر تو لاکھ ہیں پہلو قرار کے
تابش دہلوی