شریکِ زیست وہی آئنہ ہے مدت سے
جو حرف حرف مجھے پڑھ رہا ہے مدت سے
کوئی بھی چہرہ سجالے تو اپنے چہرے پر
یہ عیب کارِ ہنر بن چکا ہے مدت سے
وصال و ہجر کے موسم گزار آیا ہوں
محبتوں کا مجھے تجربہ ہے مدت سے
وہ ہم سفر ہے تو کھلتے ہیں راستے مجھ پر
خزاں رتوں میں وہ موجِ صبا ہے مدت سے
جو چاہتا ہوں وہ میں لکھ نہیں سکا اب تک
اگرچہ میرا قلم چل رہا ہے مدت سے
نجانے میرے لیے تم نے کیا بیان دیا
وضاحتوں کا مجھے سامنا ہے مدت سے
ہمارے نام و نشاں تم مٹا نہ پاؤ گے
ہمارے ساتھ ہمارا خدا ہے مدت سے
قبول و رد کے مراحل کے درمیاں ہے ابھی
مرے لبوں پہ جو حرفِ دعا ہے مدت سے
پرائی آگ اٹھا لائے اپنی بستی میں
ہر ایک گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے مدت سے
نثار تو نے دیے کیسے خال و خد مجھ کو
ہر ایک آئنہ مجھ سے خفا ہے مدت سے
ڈاکٹر نثار احمد نثار