غزل
شعلہ ہے پھول پھول چمن تک نہ آئیو
شادابیٔ بہار سے دھوکا نہ کھائیو
مدت ہوئی وہ کوئے ملامت اجڑ گیا
اب کے برس چراغ وفا مت جلائیو
دامن سے ہم نے گرد تعلق بھی جھاڑ دی
آسودگان ہجر کے اب منہ نہ آئیو
ان مسکراہٹوں میں دبی ہے غموں کی آنچ
چہرے کے روپ رنگ سے دھوکا نہ کھائیو
اتنے برے تو جی کے نہیں زود رنج لوگ
آشفتگان شوق پہ تہمت نہ لائیو
پتھر نہ ڈال دے کوئی جھولی میں دن ڈھلے
ماہرؔ فقیر بن کے صدا مت لگائیو
کیلاش ماہر