شعور و فکر کا ہر زاویہ سنور جائے
فریب ذات کا نشہ اگر اتر جائے
اسے ملال کہ انسان اب نہیں ملتا
مجھے یہ خوف کہیں آدمی نہ مر جائے
نہ کوئی در ہے مقفل نہ بند کوئی گلی
رکے بغیر کوئی کس طرح گزر جائے
یہ وہ سفر ہے کہ مہلت نہیں ہے پل بھر کی
ذرا سی چوک ہو اور وقت وار کر جائے
لکیریں ہاتھ کی ہوجائیں ریزہ ریزہ کیوں
متاع جستجو مٹھی میں کیوں بکھر جائے
عجیب وصف ہے رکھا خدا نے بچوں میں
گلے لگاؤ تو خوابوں سے آنکھ بھر جائے
یہ اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش ہے
نگاہ جب بھی اٹھے اپنے عکس پر جائے
میں اپنے آپ کو شاید کہ جاکے چھولوں راز
ذرا سی دیر کو یہ وقت گر ٹہر جائے
رفیع الدین راز