شمع کی روشنی ہر سو بکھر جاتی تو اچھا تھا
اگر اس تک ہماری بھی نظر جاتی تو اچھا تھا
ہیں اس کے نام لیوا تو بہت اس شہر میں لیکن
رہِ الفت اگر اس کے بھی گھر جاتی تو اچھا تھا
بدل جاتی ہماری زندگی پا کر تمہیں جاناں
اگر قسمت ہماری بھی سنور جاتی تو اچھا تھا
میں اپنا پیرہن رنگوں سے اس کے شوخ کر لیتی
دھنک جو میرے آنگن میں اتر جاتی تو اچھا تھا
دوائے دل اکیلی کیا کرے گی درد کا درماں
مسیحائی بھی ساتھ اے چارہ گر جاتی تو اچھا تھا
وہ آغاز محبت کی جو باتیں تھیں رہیں باتیں
جو چاہت دیدہ و دل سے گزر جاتی تو اچھا تھا
صبیحہ ہم بہت پچھتائے عرض مدعا کرکے
جو اپنی آرزو دل میں ہی مر جاتی تو اچھا تھا
صبیحہ خان صبیحہ