شوق پھر کوچۂ جاناں کا ستاتا ہے مجھے
میں کہاں جاتا ہوں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
جلوہ کس آئینہ رو کا ہے نگاہوں میں کہ پھر
دل حیرت زدہ آئینہ بناتا ہے مجھے
عاشقی شیوہ لڑکپن سے ہے اپنا ناصح
کیا کروں میں کہ یہی کام کچھ آتا ہے مجھے
لطف کر لطف کہ پھر مجھ کو نہ دیکھے گا کبھی
یاد رکھ یاد کہ تو در سے اٹھاتا ہے مجھے
وحشتؔ اس مصرع جرأت نے مجھے مست کیا
کچھ تو بھایا ہے کہ اب کچھ نہیں بھاتا ہے مجھ
وحشت رضا علی کلکتوی