غزل
شکریہ ہستی کا! لیکن تم نے یہ کیا کر دیا
پردے ہی پردے میں اپنا راز افشا کر دیا
مانگ کر ہم لائے تھے اللہ سے اک درد عشق
وہ بھی اب تقدیر نے اوروں کا حصہ کر دیا
دو ہی انگارے تھے ہاتھوں میں خدائے عشق کے
ایک کو دل ایک کو میرا کلیجا کر دیا
جب تجلی ان کی برق ارزانیوں پر آ گئی
آبلے سے دل کے پیدا طور سینا کر دیا
اپنی اس وارفتگئ شوق کا ممنون ہوں
بارہا مجھ کو بھری محفل میں تنہا کر دیا
واقعات عشق کا تھا لمحہ لمحہ اک صدی
ہر نفس میں میں نے اک ارمان پورا کر دیا
مرحمت فرما کے اے سیمابؔ غم کی لذتیں
زیست کی تلخی کو فطرت نے گوارا کر دیا
سیماب اکبر آبادی