غزل
شکوے ہمیں تو جہد مکرر کے نہیں ہیں
ہجرت ہوئی ہے یوں کہ کسی گھر کے نہیں ہیں
کس جرم میں یہ پہلو تہی ہم سے روا ہے
اے شیشۂ گرد ہم کوئی پتھر کے نہیں ہیں
سربستۂ زنجیر کیا ہم کو جنہوں نے
وہ لوگ اسی گھر کے ہیں باہر کے نہیں ہیں
کس درجہ مکرم ہیں مرے اشک نہ پوچھو
وہ دام ملے ہیں کہ جو گوہر کے نہیں ہیں
وہ درد سہا ہے کہ جو غیروں کا نہیں تھا
وہ زخم لگے ہیں کہ جو خنجر کے نہیں ہیں
عابد جعفری